سچ کہا کسی نے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے..
کہتے ہیں ایک بچہ اس گندے پھٹے بوسیدہ بدبودار کمبل کو نہایت سلیقے سے تہہ لگا کر سنبھال رہا تھا جو اس کی والدہ اس کے دادا ابو کو گھر سے علیحدہ ایک کونے میں چارپائی پر لٹا کر اوڑھنے کیلئے دیتی تھی.. باپ نے پوچھا.. "بیٹا اس میلے کچیلے گندے کمبل کو اتنا سنبھال سنبھال کر ' پیک کرکے کیوں رکھ رہے ہو..؟"
بچے نے معصومیت سے کہا.. "ابو جان! کل آپ نے بھی تو بوڑھے ہونا ہے.. آپ کو بھی اس کی ضرورت پڑے گی.. اس لئے میں آج سے ہی اس کو سنبھال کر رکھ رہا ہوں.."
باپ نے یہ سنا تو اس کو ہوش آ گیا اور اس نے اپنے والد کو گرم کمرے میں لٹا کر اعلیٰ لحاف دے کر اس کی خدمت شروع کر دی تاکہ کل میری اولاد میرے ساتھ ایسا نہ کرے..
اسی طرح ایک جوان اپنے بوڑھے باپ سے تنگ آ کر اس کو دریا میں پھینکنے گیا.. باپ نے کہا.. "بیٹا ! ذرا اور آگے گہرائی میں دریا کے اندر جا کر مجھے پھینکو.."
بیٹے نے کہا.. "یہاں کنارے پہ کیوں نہیں.. اور وہاں گہرائی میں کیوں..؟"
باپ نے جواب دیا.. "اس لئے کہ یہاں تو میں نے اپنے باپ کو گرایا تھا.."
بیٹا کانپ اٹھا کہ کل یہی انجام میرا ہو گا.. وہ باپ کو گھر لے آیا اور اس کی خدمت شروع کردی..
دوستو ! یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ آج آپ اپنے ماں باپ کی نافرمانی کریں اور کل آپ کی اولاد آپ کی فرمانبردار ہو اور آپ کے لئے فتنہ ' آزمائش اور جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے..
کانٹے بو کر گلابوں کی توقع رکھنا عبث ہے..
خزاں کے موسم میں بہاروں کی امیدیں باندھنا نادانی ہے..
بنجر زمینوں میں تخم ریزی کرکے نخلستانوں کے خواب دیکھنا حماقت ہے..
اگر موتیے ' چنبیلی اور گلابوں کی پیوند کاری کرو گے تو یقینا" طرح طرح کی مہکتی خوشبوئوں کے سنگ زیست کے رنگ اور گل رنگ نظارے ہی دیکھو گے.. اس لئے کہ یہی اللہ کریم کا قانون ہے..
آج سے اپنے والدین کو پھولوں کی سیج پر بٹھائیں ' ان کے احکامات سر آنکھوں پر رکھیں ' انھیں اف تک نہ کہیں.. تاکہ کل آپ کی اولاد آپ کے سر پر عزت و وقار اور قدر دانی کا تاج پہنائے..
یہ دنیا دارالعمل ہے.. آخرت دارالجزا ہے.. دارالجزا میں بدلہ پانے سے پہلے اس دنیا میں ہی بہترین جزا کے حقدار بن کر دکھائیں تاکہ اللہ کریم کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے حقدار ٹھہریں.......!!