ایک استاد صاحب اکثر اپنے شاگردوں سے کہا کرتے تھے کہ
"یہ دین بڑا قیمتی ہے۔۔۔!"
ایک روز اُنکے کسی طالب علم کا جوتا پھٹ گیا۔ وہ موچی کے پاس گیا اور کہا، "جناب! میرا جوتا مرمت کر دو۔ اس کے بدلہ میں میں آپکو دین کا ایک مسئلہ بتاؤں گا۔۔۔!"
موچی نے کہا، "برخودار! اپنا دینی مسئلہ رکھو اپنے پاس، مجھے صرف پیسے چاہیے۔۔۔!" طالبِ علم نے اُسے بہت دین کی باتیں بتائیں، لیکن موچی بغیر پیسوں کے جوتا مرمت کرنے پر راضی نہ ہوا۔
وہ طالبِ علم اپنے استادِ محترم کے پاس گیا اور سارا واقعہ سُنا کر کہا، "لوگوں کے نزدیک دین کی قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔!"
استاد بھی آخر استاد تھے اور بہت دوراندیش تھے، انہوں طالبِ علم سے کہا، "اچھا ایسا کرو میں تمہیں ایک موتی دیتا ہوں، تم اِسے سبزی منڈی لیجا کر اس کی قیمت معلوم کرو۔۔۔!"
وہ طالبِ علم اُس موتی کو لے کر سبزی منڈی پہنچا اور ایک سبزی فروش سے کہا، "اس موتی کی قیمت لگاؤ، کتنے میں خریدو گے۔۔؟"
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، "تم اس کے بدلے یہاں سے دو یا تین لیموں لے سکتے ہو۔ ویسے تو یہ موتی میرے کسی کام کا نہیں ہے، لیکن میرے بچے اس سے کھیلیں گے۔۔۔!"
وہ بچہ استاد کے پاس آیا اور کہا، "اس موتی کی قیمت دو یا تین لیموں ہیں۔۔۔!"
استاد نے کہا، "اچھا اب تم اس موتی کو سُنار کے پاس لے جاؤ، اور اُس سے اِس کی قیمت معلوم کرو۔۔۔!"
وہ طالبِ علم قریب کے صرافہ بازار گیا اور پہلی ہی دکان پر جب اُس نے سنار کو وہ موتی دکھایا تو وہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا، "بیٹا! اگر تم اِس موتی کے بدلے میں میری پوری دکان بھی لے لو تو بھی اسکی قیمت پوری نہ ہوگی۔۔۔!"
طالبِ علم اپنے استاد کے پاس واپس آیا اور موتی کی قیمت جو سُنار نے لگائی تھی وہ بتائی۔۔!
تب استادِ محترم بولے، "بچے! ہر چیز کی قیمت اُس کی منڈی میں ہی لگانی چاہیے۔ اور دین کی قیمت صرف اللہ کی منڈی میں ہی لگتی ہے، جس کی قیمت صرف اہلِ علم حضرات ہی سمجھتے ہیں، بھلا جاہل کیا جانے دین کی قیمت کو۔۔؟"