سکول کا وقت ختم ہو چکا تھا- وہ جیسے ہی صدر دروازے سے باہر نکلے، ان کے ذہن میں ننھی کا کہا ہوا جملہ گونجنے لگا، ابو جان میرے لیے امرود لائیے گا- ان کی نظریں مختلف ریڑھی والوں کی طرف اٹھ گئیں- تھوڑی دور ایک پھل فروش ریڑھی لگائے کھڑا تھا- وہ اس کے پاس پہنچے اور کہا: "کیوں بھئی! امرود میٹھے ہیں، ان کے اندر سنڈیاں تو نہیں ہوں گی؟"
"دیکھ لیجیے صاحب! تازہ، صاف اور میٹھے ہیں-" پھل فروش نے تیزی سے ایک بڑا سا امرود کاٹ کر ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا-
انہوں نے چکھ کر دیکھا، امرود واقعی میٹھا تھا
"کتنے تولوں جناب!" ریڑھی والے نے کہا-
"دو سیر-" جواب ملا- پھل فروش نے دو سیر امرود تولے، تھیلے میں ڈالے اور ہیڈ ماسٹر صاحب کے حوالے کیے- ہیڈ ماسٹر صاحب نے قیمت ادا کی اور ساتھ ہی تھیلے میں سے دیکھ کر اتنا بڑا امرود نکالا جتنا بڑا وہ چکھنے کے لیے کھا رہے تھے- یہ امرود انہوں نے ریڑھی فروش کی ریڑھی پر رکھ دیا-
"واپس کیوں کیا ہے صاحب؟" ریڑھی والے نے حیرانی سے کہا-
"تم اتنا بڑا امرود پہلے ہی مجھے چکھنے کے لیے دے چکے ہو- چونکہ وہ تول میں شامل نہیں ہوا تھا، اس لیے اس کی بجائے یہ امرود تمہارا ہے-" ہیڈ ماسٹر صاحب نے وضاحت کی-
"صاحب! تقریباً ہر گاہک خریدنے سے پہلے تھوڑا بہت پھل چکھتا ہے اور پھر اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے-" پھل فروش بولا-
"بھلے آدمی! تمہاری کمائی میں اللہ تعالی برکت دے، تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا- لیکن مجھے تو فرق پڑے گا نا-" ہیڈ ماسٹر صاحب نے جواب دیا-
"وہ کیسے جناب؟" پھل فروش نے حیرت سے پوچھا-
"میرے بھائی اللہ کا حکم ہے- اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہے کہ ناپ تول اور قیمت ادا کرنے میں کمی نہ کیا کرو- جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے- کہیں ایسا نہ ہو کہ اک ذرا سا امرود میرے لیے ہلاکت بن جائے- لہذا میری بھلائی اتنا ہی مال لینے میں ہے، جتنے کی میں نے قیمت ادا کی ہے- اس لیے مجھے اس سے زیادہ لینے کا کوئی حق نہیں- سمجھے؟" ہیڈ ماسٹر صاحب نے وضاحت کی۔ السلام و علیکم کہا اور چل دیے، اور امردو فروش حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہ گیا-